Monday, August 16, 2010

لبنان میں اسرائیلی سازش بے نقاب


محمداحمد کاظمی مشرق وسطیٰ کی سیاست نئے باب میں داخل ہورہی ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں اسرائیل کی جارحیت بین الاقوامی سطح پر مزید سامنے آئی ہے ۔ بلکہ کچھ معاملات میں اسرائیلی دفاعی حالت میں آنے پر مجبور ہوا ہے ۔ غزہ کے لئے امدادی جہاز فلوٹیلا پر گزشتہ مئی میں کئے گئے اسرائیلی حملے کے بعد حز ب اللہ نے حال ہی میں ایسے شواہد پیش کئے ہیں
جس سے لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے 2005میں ہوئے قتل میں اسرائیل کا براہ راست ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے اسرائیلی افواج کے ذریعہ لبنانی سرحد میں داخل ہوکر درختوں کے کاٹنے کا واقعہ رونما ہوا تھا جس میں ایک اسرائیلی فوجی افسر اور لبنان کے تین فوجی اور ایک صحافی ہلاک ہوئے تھے۔ ان تمام واقعات سے اسرائیل کی مزید جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں ۔
گزشتہ 9 اگست2010کی شام کو بیروت میں حزب اللہ کے سکریڑی جنرل حسن نصر اللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک ایسی ڈیڈیو پیش کی جو کہ اسرائیل بغیر پائلیٹ کے طیاروں ڈرون کے ذریعہ سابق وزیر اعظم رفیق حریری کی آمد ورفت کے تمام راستوں کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار افراد کے اقبالیہ بیانات بھی دکھائے گئے جس میں بتایا گیا تھا کہ لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کا قتل تل ابیب کی ہدایت کے مطابق کیا گیاتھا۔
حز ب اللہ کے ٹیلی ویژن چینل المنار نے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی تقریر اور پریس کانفرنس کے دوران دکھائی گئی ویڈیو کو براہ راست نشر کیا ۔ لبنان کے روزنامہ ’الاخبار‘ کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے حسن نصر اللہ کی براہ راست نشر کی جا رہی تقریر کو اچانک بند کر دیا تاکہ اسرائیلی عوام ان حقائق کو نہ دیکھ سکیں۔
حز ب اللہ کے ذریعہ اسرئیل کی سازش کا پردہ فاش ہونے پر لبنان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے ستائش کی ہے۔لبنان کی فری پیٹریاٹک مومنٹ کے رہنما مائکل ایون نے کہا ہے کہ حز ب اللہ کے ذریعہ پیش کئے گئے دستاویزی ثبوت کافی اہم ہیں ۔ لبنان کے ہی ایک اور بڑے سیاسی رہنما اور پروگرسیو سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر ولید جمبلات نے کہا ہے کہ ان ثبوتوں نے سابق وزیر اعظم کے قتل کے حالات کو سمجھنے کے لئے ایک بڑا دروازہ کھول دیا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کا 14فروری 2005کو ایک بم دھماکے میں قتل ہوا تھا۔اس واقعہ میں ان کے علاوہ 22دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔ لبنان کی وزارت دفاع کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں اور بغیر پائلٹ کے نگرانی والے ڈرون طیاروں نے 14فروری 2005کو اس علاقے پر پروازیں بھری تھیں جہاں بم دھماکے میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کا قتل ہوا تھا۔
حز ب اللہ کے ذریعہ سامنے لائی گئی ویڈیو میں اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے والے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس نے وزیر اعظم رفیق حریری کوایک معتمدکے ذریعہ یہ اطلاع دی تھی کہ حزب اللہ ان کے قتل کی سازش کررہا ہے۔
واضح رہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کو حال ہی میں موجودہ وزیر اعظم سعد حریری نے ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے قتل کی تفتیش کرنے والا اقوام متحدہ ٹریبونل بعض غیر منظم حزب اللہ اراکین کو مورد الزام قرار دے سکتا ہے۔ حزب اللہ رہنما حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ پر الزام لگانے کا مقصد لبنان میں مذہب اور مسلک کی بنیا د پرنفرتیں پھیلانا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے ذریعہ اسرائیلی طیاروں سے لی گئی ویڈیو کا سامنے لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حز ب اللہ کی جاسوسی کا نظام بہت پختہ ہے اور اس نے اسرائیلی ذرائع تک رسائی قائم کی ہوئی ہے۔
اس سے پہلے3۔اگست کو اسرائیل کے کچھ فوجیوں نے جنوبی لبنان میں داخل ہوکر کچھ درخت کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے لئے اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ کے نگراں دفتر اور لبنانی حکام کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اسرائیل کی جارحیت کے جواب میں لبنانی فوجیوں نے گولی چلا دی جس میں ایک اسرائیلی فوجی افسر ہلاک ہوگیا۔ اس پر اسرائیل نے مشتعل ہوکر توپ اور ہیلی کاپٹر کے ذریعہ لبنانی سرحد میں گولی باری کی جس میں 3لبنانی فوجی اور روزنامہ الاخبار کا ایک صحافی ہلاک ہوگئے ۔ 2006کی اسرائیل اورحزب اللہ کے درمیان ہوئی جنگ کے بعد سرحد پر پیش آنے والا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے شہر کریات شمونا اور لبنان کے ادیسہ گاؤں کے درمیان سرحد پر اسرائیلی فوجی لبنان میں داخل ہوکر بقول ان کے ایسے درخت کاٹ رہے تھے جن سے انہیں سرحد پار الیکٹرانک نگرانی میں رکاوٹ آرہی تھی۔
یہ واقعہ بلو لائن پرپیش آیا جو ابھی تک بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے ۔ البتہ دونوں فریقوں نے فی الحال اسے سرحد کے طور پر مان رکھا ہے۔ اسے اقوام متحدہ نے 1949میں نقشے پر طے کیا تھا۔ یہاں اکثر کشیدگی کا ماحول رہتا ہے ۔1982میں اسی سرحد کو اسرائیلی افواج نے پارکر کے جنوبی لبنان کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیاتھا۔ البتہ 2000میں حزب اللہ نے اسرائیلی افواج کو اس خطے سے باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسرائیل کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جہاں سے اسرائیل نے مجبور ہوکر کوئی زمین خالی کی تھی۔ حز ب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 2006میں جنگ بھی اسی سرحد کے آس پاس لڑی گئی تھی ۔ جب اسرائیل کو حز ب اللہ کے خلاف کوئی کامیابی نہ ملی تو 34دن کی جنگ کے بعد بین الاقوامی طاقتوں نے جنگ بندی کرادی ۔ اب اس سرحد پر اسرائیلی افواج ، اقوام متحدہ سلامتی دستے اور لبنانی فوج نگرانی کر رہی ہے۔
لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر ہوئے حالیہ واقعات پر بی بی سی کے نمائندہ وائر ڈیویس نے شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقہ سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر یہ ٹکراؤ حزب اللہ اور اسرائیلی افواج کے درمیان ہوتا تو کافی شدت اختیار کر سکتا تھا ۔ ان کے مطابق 2006جنگ کے بعد حزب اللہ نے اپنے گوریلا لڑاکو جوانوں کو میزائلوں سے مسلح کر دیا ہے ۔ وائر ڈیویس نے مزید لکھا ہے کہ شمالی اسرائیل میں لوگ خوفزدہ تھے کہ کہیں یہ ٹکراؤ حز ب اللہ اوراسرائیلی افواج کے درمیان جنگ کی شکل اختیار نہ کر لے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے سرحدی علاقہ کے شہروں کو ہائی الرٹ نہیں کیا تھاجس سے یہ ظاہر تھا کہ اسرائیل کو اس سرحدی جھڑپ کے بڑھنے کا اندیشہ نہیںہے۔
خطے میں لبنان ایسا ملک ہے جہاںوزیر اعظم اور کئی اہم حکام مغرب نواز ہوتے ہوئے بھی حزب اللہ کے خلاف نہیں ہوسکتے۔ 2006جنگ کے بعد حز ب اللہ نے حکومت کی مغرب نوازی کم کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب حزب اللہ لبنان کی 280 رکنی پارلیمنٹ میں سے 14 نشستوں پر قابض ہے اور وہ 8 مارچ اتحاد میں شامل ہے۔ البتہ حزب اللہ کو کمزور کرنے کے لئے مغربی میڈیا نے کئی بار خبریں نشر کی ہیں ۔ کچھ عرب ممالک نے بھی حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کرنے کے لئے بڑی تعداد میں فنڈ خرچ کئے ہیں۔
واضح رہے کہ 2006میں اسرائیل -حزب اللہ جنگ کے دوران میں لندن کے سفر پر تھا ۔ جنگ کے شروع میں امریکہ -برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک کا کہنا تھا کہ خطے میں دہشت گردی ( یعنی حزب اللہ) کے خاتمے تک جنگ جار ی رہے گی۔ لیکن جب یہ جنگ غیر متوقع طور پر طولانی ہونے لگی اور اسرائیل کو حزب اللہ کے خلاف کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملی تو جنگ بندی کی کوششیں ہونے لگیں۔
بعد میں مجھے لندن میں مقیم ایک لبنانی صحافی نے بتایا کہ اسرائیل مخالف جنگ کے دوران حز ب اللہ نے اپنے سبھی جوانوں کو استعمال نہیں کیا بلکہ صرف ایک تہائی افراد کو ہی جنگ پر بھیجا گیا تھا ۔ اس صحافی نے جنگ کے دوران اپنے آشنا کئی کنبوں میں فون کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا اکثر جوان جنگ میں مصروف ہیں یا نہیں ۔ مذکورہ صحافی نے اپنے آشنا جوانوں سے فون پر بات کرکے اس بات کی تصدیق بھی کی۔
لبنان اسرائیل سرحد پر ہوئی حالیہ جھڑپوں کے بعد اسرائیل کے ایک بڑے اخبار ہارٹیز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ حالیہ واقعات کے بعد اسرائیلی حکام کوا پنی افواج کی طاقت کے بارے میں محا صبہ کر نا چاہئے۔ اخبار نے 2006 میںحز ب اللہ کے خلاف جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی صلاحیتوں میں اضافے پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ مئی میں فلوٹیلہ امدادی جہاز پر اسرائیلی حملے کے بعد جس طرح سے اسرائیل دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا ہے اس سے اس کے مخالفین کی ہمت افزائی ہوئی ہے۔
2006کی جنگ کے بعد عرب ممالک میں حز ب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی شبیہ مقبول ترین رہنما کی ہے ۔ عوام سمجھتے ہیں کہ جس اسرائیل کو 1973میںتمام عرب حکومتیں ناکام نہ کر سکیں اسے تنہا حز ب اللہ نے ناکام کردیا ہے ۔ اس معاملے میں وہ مذہبی اور مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر حسن نصر اللہ کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ عرب عوام میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف موجود شدیدنفرت بھی ہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل جس طرح بین الاقوامی سطح پر اکیلا پڑ رہا ہے اوراس کے اپنے اخبارات فوجی طاقت کے محاصبے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب کمزور پڑ رہا ہے ۔ کیا امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کا پہلے کی طرح دفاع کرتے رہیں گے؟ کیا اسرائیل اب بھی بین الاقوامی برادری سے پروپیگنڈے کے ذریعہ حقائق کو چھپانے میں کامیاب ہوگا؟ کیا عرب حکومتیں اب بھی اسرائیل کے غیر انسانی اقدام پر خاموش رہیں گی؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا جواب منصفانہ طریقے سے ملنا آج کے حالات میں کافی مشکل ہوگیا ہے۔
(مضمون نگار سے 09811272415 یا ahmadkazmi@hotmail.com پر رابطہ کر سکتے ہیں)۔

No comments: